وہ میری روح ہے میں اس کو روشنی دے دوں
سمیٹ کر اسے بانہوں میں زندگی دے دوں
جو دھڑکنوں کو میری سن کے گیت لکھتا ہے
میں کیسے عشق میں پھر اس کو تیرکی دے دوں
وہ پی رہا ہے بہت کرب میں زہر تنہا
میں دل میں رہ کے اسے اپنی چانشنی دے دوں
میں چاہتی ہوں میرے پیار میں بھی شدت ہو
کہ دور رہ کے بھی اس دل کی دل لگی دے دوں
میں ڈرتی رہتی ہوں حالات کی نزاکت سے
کھبی نہ ہو میں اسے اپنی بے بسی دے دوں
وہ صحرا صحرا ہے تنہائیوں کے جنگل میں
سمیٹ کر میں اسے عشق و بندگی دے دوں
وہ روح قلب میرے جسم و جاں کا مالک ہے
میں اس کا درد چرا کر اسے خوشی دے دوں