سنا ہے وہ کسی کا ہو گیا ہے
میرا دل اب اکیلا ہو گیاہے
اسے اب یاد میں آوں تو کیسے
ہر اک خواب اس کا پورا ہو گیا ہے
مجھے محفل کی اب ہے کیا ضرورت
جو تنہائی سے رشتہ ہو گیا ہے
نہ ہونے سے سفر میں ساتھ تیرے
کٹهن ہر ایک رستہ ہو گیا ہے
اجالوں کی نہ جانے کیا ہے سازش
مرے گهر میں اندهیرا ہو گیا ہے
جلایا دهوپ نے غم کی مجهے یوں
کہ چہرہ میرا دهندلا ہو گیا ہے
یہاں ہر کوئی کهیلے اور توڑے
مرا دل بهی کهلونا ہو گیا ہے
رہا برسوں میرا جس سے تعلق
وہ پل بھر میں پرایا ہو گیا ہے
نہیں لگتا کہیں دل نور دلکش
وہ جس دن سے جدا سا ہو گیا ہے