سنبھال کر رکھدیئے مفید سپنے ہی تھے
تمہارے درد بھی میرے اپنے ہی تھے
وہ روش پرواز بھی کیا مُسرت لائی
میری خوشی میں خلل جمنے ہی تھے
صحرا نہ برسا تو ابر قحط کے بعد
وہ فکر روزگار یار بڑھنے ہی تھے
کثیر ادائیں جس فطرت سے اٹھی
میری طرح بھی کئی لُٹنے ہی تھے
اُس نگاہ کی تو جس طرف نگاہ اٹھی
ہر آنکھ میں فقط جھرنے ہی تھے
کوئی رجحان ملا وہ بھی اچھا ہوا
مجھے ویسے بھی دن کٹنے ہی تھے