سنگدل شہر سے جب کوئی سوالی آئے
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiسنگدل شہر سے جب کوئی سوالی آئے
بھیک میں لے کے وہ ماں بہن کی گالی آئے
روز اجڑا ہوا گلشن یہ دعا کرتا ہے
میرے آنگن میں کبھی کوئی تو مالی آئے
مہرباں کوئی اسیروں ملے ایسا بھی
قیدِ زِنداں سے جو چپ چاپ نکالی آئے
میری میت پہ سبھی غیر تھے رونے والے
میرے اپنے تو بجاتے ہوۓ تالی آئے
آسماں چھونے لگے آج پھر ان کے جذبات
چوم دیوانے ترے در کی جو جالی آئے
قوم پھر آج ہے سوئی ہوئی غفلت کی نیند
کاش پھر میر یا اقبال یا حالی آئے
مجھ گنہگار پہ مالک کی عطا ہے باقرؔ
میرے حصے میں سدا شعر مثالی آئے
More Sad Poetry






