سنیں گے تمہاری کہانی کبھی
ہم بھی تمہاری زبانی کبھی
آ جائے گی آتے آتے جناب
شعروں میں اپنے روانی کبھی
جسے تم نے دیکھا برسوں بعد
رہی ہے تمہاری دیوانی کبھی
بڑھاپے نے یہ آہ بھر کر کہا
بڑی خوبرو تھی جوانی کبھی
سدا گردشوں میں کٹی زندگی
زمانی کبھی تو مکانی کبھی
ٹھہر سی گئی مست بادِ خرام
جو چلتی رہی ہے طوفانی کبھی
عظمٰی وہ ہی بات یاد آ گئی
جو پہلے نہ آئی بتانی کبھی