اے عشق تجھ کو کر کے دکھانےکی عمر ہے
سو سو گنا ، گناہ بڑھانے کی عمر ہے
بگڑے ہووں کو راہ پہ لانے کی عمر ہے
روٹھا ہے کوئی اس کو منانے کی عمر ہے
موقع ہے تیرے پاس اگر چھپ سکے تو چھپ
اے چا ند میرے چاند کے آنے کی عمر ہے
جس پل تری نگاہ میں پیوست تھی نگاہ
اس پل کی صدیوں جیسے زمانے کی عمر ہے
یہ قرب دیکھ کہ گئیں بے باکیاں مجھے
تیری تو حشر سر پہ اٹھانے کی عمر ہے
معیار سے جو پھرذرا گرنے لگے ہو تم
لگتا ہے تم کو پھر سےاٹھانے کی عمر ہے
سوچا ہے پیار کی یوں عمارت کھڑی کروں
تسخیر جسم وروح کی منزل کٹھن سہی
تم کو تم ہی سے جاناں چرانے کی عمر ہے
دیکھا نہیں ہے مدتوں ہنستے اسے کبھی
حالانکہ اس کے ہنسنے ہنسانے کی عمر ہے
کرتا ہوں کار عشق عبادت کے رنگ میں
میری تو کام کرکے کمانے کی عمر ہے
آداب میکدہ ہیں کہیں بیٹھ کر پیو
زاہد تری ثواب کمانے کی عمر ہے
اب غیر کا خیال بھی ہے وقت کا زیاں
تیری تو میرے دل میں ٹھکانے کی عمر ہے
فصل بدن کو سایہ ربی میں کاٹیئے
مزدور کی جو رزق کے کھانے کی عمر ہے
کیسے ہو مفتی ایک بھی فتویٰ نہیں دیا
کچھ کام کیجئے کہ کمانے کی عمر ہےْ