سو سو گنا ، گناہ بڑھانے کی عمر ہے
Poet: سید ایاز مفتی By: سید ایاز مفتی, houstonاے عشق تجھ کو کر کے دکھانےکی عمر ہے
سو سو گنا ، گناہ بڑھانے کی عمر ہے
بگڑے ہووں کو راہ پہ لانے کی عمر ہے
روٹھا ہے کوئی اس کو منانے کی عمر ہے
موقع ہے تیرے پاس اگر چھپ سکے تو چھپ
اے چا ند میرے چاند کے آنے کی عمر ہے
جس پل تری نگاہ میں پیوست تھی نگاہ
اس پل کی صدیوں جیسے زمانے کی عمر ہے
یہ قرب دیکھ کہ گئیں بے باکیاں مجھے
تیری تو حشر سر پہ اٹھانے کی عمر ہے
معیار سے جو پھرذرا گرنے لگے ہو تم
لگتا ہے تم کو پھر سےاٹھانے کی عمر ہے
سوچا ہے پیار کی یوں عمارت کھڑی کروں
تسخیر جسم وروح کی منزل کٹھن سہی
تم کو تم ہی سے جاناں چرانے کی عمر ہے
دیکھا نہیں ہے مدتوں ہنستے اسے کبھی
حالانکہ اس کے ہنسنے ہنسانے کی عمر ہے
کرتا ہوں کار عشق عبادت کے رنگ میں
میری تو کام کرکے کمانے کی عمر ہے
آداب میکدہ ہیں کہیں بیٹھ کر پیو
زاہد تری ثواب کمانے کی عمر ہے
اب غیر کا خیال بھی ہے وقت کا زیاں
تیری تو میرے دل میں ٹھکانے کی عمر ہے
فصل بدن کو سایہ ربی میں کاٹیئے
مزدور کی جو رزق کے کھانے کی عمر ہے
کیسے ہو مفتی ایک بھی فتویٰ نہیں دیا
کچھ کام کیجئے کہ کمانے کی عمر ہےْ
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






