گزشتہ سے پیوستہ
چلو اب ساتھ چلتے ہیں مسافر بن کے راہوں پر
تو مجھ کو معاف اب کردے میری ساری خطائوں پر
محبت تھی خطاء جانا جو میں بھی کرہی بیٹھا ہوں
میں اب ہر زخم سہہ لوں گا تری ساری سزائوں پر
میرے اللہ محبوب سے مجھ کو ملادے تو
میری بیمار طبیعت کو اب جلا دے تو
میں سجدے کرتے کرتے پھوڑ لوں گا آج اپنا سر
میری اس عاجزی کا صورتِ محبوب صلہ دے تو
جنوںِ عاشقی جب سر پہ چڑھ بیٹھا کھلا یہ سچ
یہ میرا عشق ہے ناقص ذرا تو اس گناہ سے بچ
ہٹا پردہ نگاہوں سے حقیقت دیکھ لی میں نے
یہ باطن وہ نہیں باطن جو ظاہر میں لگا ہے سچ
پھر خدا کی چاہ میں حالت صورتِ مجذوب بن بیٹھی
خدا کی بندگی ہر چیز سے مرغوب بن بیٹھی
خلا پائی خیالوں میں مجازی عشق کے میں نے
حقیقت دل میں میرے صورتِ محبوب بن بیٹھی