سونی گلیوں میں بسر یہ زندگی پائی گئی
سوچتی ہوں بے وفا سے دوستی آئی گئی
دے گیا ہے سوچنے کو پیار کی وہ لذتیں
ہم بھی اپنی خواہشوں میں اب کمی لائی گئی
بڑھ رہی ہے پیاس میرے صبر کی بھی دیکھئے
روزہ رکھ کر پوری دل کی تشنگی لائی گئی
مانتی ہوں کٹ ہی جاتے ہیں یہ پل اچھے برے
ہم اکیلے دور تجھ سے دل کی کائی گئی
ہر طرف بکھری پڑی ہوں گرمیوں کے درمیاں
تیرگی کی انتہا ہے ، روشنی پائی گئی
لوٹ آؤ پھر ہوائیں مست ہیں اس شہر میں
بن ترے ہم جانِ جاں اب کیا تنہائی گئی
صبر کا دامن کسی حالت میں اپنے ہاتھ سے
چھوڑ کر دیکھو بھی یہ شوق دہرائی گئی
پھیر لوں آنکھیں وفا سے کس طرح ممکن ہے یہ
وہ نہ میرے پاس ہو تو دلبر کی سودائی گئی
وہ چلا آئے گا اک لمحے میں پوجا کو مری
وشمہ ہم اس نا خدا کی بندگی آئی گئی