سونی گلیوں میں بسر یہ زندگی کیسے کریں
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, نیویارکسونی گلیوں میں بسر یہ زندگی کیسے کریں
سوچتی ہوں بے وفا سے دوستی کیسے کریں
دے گیا ہے سوچنے کو پیار کی وہ لذتیں
ہم بھی اپنی خواہشوں میں اب کمی کیسے کریں
شاہراہِ زیست پہ چلنا بہت دشوار ہے
پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے خود کشی کیسے کریں
بڑھ رہی ہے پیاس میرے صبر کی بھی دیکھئے
روزہ رکھ کر پوری دل کی تشنگی کیسے کریں
مانتی ہوں کٹ ہی جاتے ہیں یہ پل اچھے برے
ہم اکیلے دور تجھ سے دل لگی کیسے کریں
ہر طرف بکھری پڑی ہوں گرمیوں کے درمیاں
تیرگی کی انتہا ہے ، روشنی کیسے کریں
لوٹ آؤ پھر ہوائیں مست ہیں اس شہر میں
بن ترے ہم جانِ جاں آوارگی کیسے کریں
صبر کا دامن کسی حالت میں اپنے ہاتھ سے
چھوڑ کر دیکھو یہ رب کی بندگی کیسے کریں
سوچتی ہوں جان محسن کی قبائیں اوڑھ کر
ہاتھ میں صاحب! قلم ہے ، شاعری کیسے کریں
پھیر لوں آنکھیں وفا سے کس طرح ممکن ہے یہ
وہ نہ میرے پاس ہو تو دلبری کیسے کریں
وہ چلا آئے گا اک لمحے میں پوجا کو مری
وشمہ ہم اس نا خدا کی بندگی کیسے کریں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






