سوچ سے وہ محال ہے شاید
یہ بھی اس کا کمال ہے شاید
کیا کروں میرا جی نہیں لگتا
احتمالِ زوال ہے شاید
کیے جاتا ہوں زندگی برباد
انتہاء سے وصال ہے شاید
میں جو ہوں، یعنی میں، کسی کا نہیں
یہی میرا کمال ہے شاید
خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
مے یہی اک حلال ہے شاید
اپنے ہی کان بھرتا رہتا ہوں
یہ مری خفیہ چال ہے شاید
کیا کروں، بول ہی نہیں پاتا
خامشی کا سوال ہے شاید
اب اسے بھول کر ہی دم لوں گا
اتنی مجھ میں مجال ہے شاید
سوچتا ہوں تو سوچتا ہوں یہی
تیرا ہونا محال ہے شاید
تیری تصویر دھندلی کیوں ہے
پردگی کا سوال ہے شاید
تٗو جو ہے ناں تُو صرف میرا ہے
یہ بھی میرا خیال ہے شاید
مجھے اپنی مثال ملتی نہیں
یعنی میں بے مثال ہوں شاید
جنید عطاری