سوچا تھا چلو لکھوں اس کے ذکر سے ہٹ کر
اپنے گھر کے کمرے کے چھوٹے سے دریچہ پر
دونوں پٹ جوں ہی کھولے
نسیم سی ہوا آئی سورج کی کرن لےکر
تم ہی سا سکوں ہے اس ریح کا چھونا
کرن بھی تم ہی جیسی روشن سی لکیر ہے
کہا تھا نا!ارے لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں اس چائے کے کپ پر
یاد آیا چائے کے بہت دیوانے ہو تم
وعدہ ہے پلاؤں گی رات کے آخری پہر میں چائے
میری باتیں،ایک ہی کپ،میں اور تم
اف پاگل کہا تھانا! کہ تم لکھو اس کے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں ہاتھوں کی لکیروں پر
اک دن ہتھیلی کو حسرت سے دیکھا تھا تم نے
کیا ان لکیروں میں تمہارا ساتھ لکھا ہے؟
ہاتھوں کی لکیریں تو اکثر جھوٹ بولتی ہیں
لکیریں چوم کر میں نے! کہا کہ رب سے مانگو
لکیریں بدلتی رہتی ہیں
سدھر جاؤ! کہا تھا نا کہ تم لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں بل میں لپٹے ان کپڑوں پر
اکثر تم دیر سے آتے تھے
وجہ معلوم ہوتی جو! شرٹ استری کرتے تھے
عہد ہے تم سے یہ استری میں ہی کر دونگی
تم وقت پہ تیار ہو جانا پھر
ارے لڑکی! کہا تھا نا کہ تم لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں ٹوٹےاس بال پر
کھانے میں بال آ جائےکتنا ناگوار ہے تمہیں
خیر خیال رکھوں گی سر ڈھانپ رکھوں گی
مگر تمہیں لمبے بال بھی تو پسند ہیں نا
تم چھو بھی لینا تم مس بھی کر لینا
اچھا سنو! اب تو لکھو اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا پھر چلو لکھوں خوشبو کے ذکر پر
تمہاری خوشبو دل و دماغ میں رچ بس گئی ہےیوں
جہاں جاؤں جو بھی کروں تم محسوس ہوتے ہو
اس احساس میں میری آنکھوں سے اکثر
آنسو بہہ جاتے ہیں مگر کبھی تو ہوگے
آنسو صاف کر دوگے
بتاؤ نا میں کیسے لکھوں؟ اسکے ذکر سے ہٹ کر
سوچا ہے اب چلو لکھوں کاغذ کے اس ٹکڑے پر
کاغذ کے ٹکڑے پر قلم بھی تو چلتا ہے
قلم سے یقینا دستخط بھی ہوتا ہے
خواب میں دیکھا ہے اس کاغذ کے ٹکڑے کو
کہ زندگی کے ہر حصے میں
تمہیں میں نے قبول لکھا ہے
چلے آؤ نا اب تم،انتظار میں ہوں میں
اس بار جو تم آؤ! جانے نہیں دونگی
کاغذ کے اس ٹکڑے پر تمہیں اپنا ہی لکھوں گی
کیا کروں؟ کیسے لکھوں اسکے ذکر سے ہٹ کر؟
ہر چیز سے اسی کا عکس جڑا ہے
لو رکھا قلم ہٹائے ہاتھ کہ
اسکے ذکر سے ہٹ کر مجھ سے لکھا نہیں جاتا
چھوڑو نا! مجھ سے لکھا نہیں جاتا