سوچا کہ ناروا شوق تھا کچھ ذلیل کرگیا
مگر وہ عشق کا آغاز نکلا جو علیل کرگیا
کوئی اور تقاضا ہوتی تو مُحال بھی کرتے
اپنا ہی اصرار تھا جو تعمیل کرگیا
عظمت سے تو ہم ادنیٰ تھے بلکل
وہ اپنی وسعت سے پھر اصیل کرگیا
رعیت گیری رہی مل کے بچھڑنے تک
پھر اپنا مزاج بدمزگی کو تحلیل کرگیا
ہم جو بھی ہیں انہیں کی علامت ہے
ایک معجزہ تھا بشر کو جلیل کرگیا
ہم اب وہ نہ رہے جب سے وہ نہ رہے
وہ حال تھا جو حالت کو تبدیل کرگیا