سوچتا ہوں کہ یادوں میں سروُر نہ ہوتا تو کیا ہوتا
اپنی چاہت کا رخ بھی مغرور نہ ہوتا تو کیا ہوتا
ملنا اور مل کر بچھڑنا تو مقدر کی بات ہے
اِس تصفییے سے کوئی مسروُر نہ ہوتا تو کیا ہوتا
یہ عاجزیاں تو فقط موجودہ عالم کا ورثہ ہے
کوئی دل کے حال سے مجبور نہ ہوتا تو کیا ہوتا
کچھ پانے کی ضد میں کھونے کا خیال کہاں
ہر امنگ پہ ہنگامہ ضرور نہ ہوتا تو کیا ہوتا
اپنے آپ میں تو بس خودپسندی پھیل گئی
اس طرح مزاج کو غرور نہ ہوتا تو کیا ہوتا
جو چُن لی ہیں راہیں ان کے تلاطم سے پوچھو
اگر منزلوں کا پتہ دور نہ ہوتا تو کیا ہوتا