گو راستے میں عشق کے تنہائیاں بھی ہیں
یہ کم ہے کہ ہمراہ تیری پنہائیاں بھی ہیں
قوس قزح کو دیکھ کے یہ راز کھلا ہے
رود فلک میں آپکی انگڑائیاں بھی ہیں
یہ سوچ کے لب سی لئے ہیں جان بہاراں
اس داستاں میں روح کی رسوائیاں بھی ہیں
اک قطرہ ء نشاط نہیں اسکی نظر میں
قسمت میں ابھی سیپ کے گہرائیاں بھی ہیں
بس حسرت و امید سے بہلے گا کہاں دل
سوچوں میں حسن ناز کی رعنائیاں بھی ہیں
اک کھیل نہیں ندرت اظہار تمنا
لفظوں کے ساتھ وقت کی پرچھائیاں بھی ہیں