چھو کر دیکھو کہیں کوئی سپنا تو نہیں
یہ وجود اسکا کہیں نظر کا دھوکہ تو نہیں
مست نگاہیں، سیاہ زلفیں گھنی اسکی
ہونٹوں کی لالی ہے کہیں کوئی چھلکتا جام تو نہیں
وہ نازک انداز، وہ شیریں لہجہ
آواز جو سنی ہے کہیں کوئی ابہام تو نہیں
چلتے چلتے رکنا، پلٹنا اور مسکرانا
سنبھل اے دل کہیں تجھے ہوش کھونا تو نہیں
عابد کو سنائی دی ہے اسکی چوڑیوں کی کھنک
لگتا ہے ابھی وہ یہیں ہے کہیں گیا تو نہیں