اب کے چمن بہار میں مہکا ہی بہت تھا
اے جان تجھے سوچ نے سوچا ہی بہت تھا
کہنا پڑی ناں بات وہ آخر بروئے شب
خوشبو نے بھولی یاد کو چھیڑا ہی بہت تھا
پلکوں پہ سجے ضبط کے بند ٹوٹنے تو تھے
کچھ دن سے میری جان میں تنہا ہی بہت تھا
پھر کیا کہ اگر ہم بھی ڈبو آئے سفینہ
لہروں کی کرامات کا چرچا ہی بہت تھا
بکھرے تو ہونگے ہاتھ میں تیرے حنا کے رنگ
وحشت میں تیرے نام کو چوما ہی بہت تھا
یادوں سے میری دیپ جلیں کیوں نہ تمہارے
سچ پوچھئے تو آپکو چاہا ہی بہت تھا
کیونکر وجود حرف سے پھوٹے نہ سویرا
تم پر میرے وجود نے لکھا ہی بہت تھا