سچا محبت نامہ - جو محبوب تک نہ پہنچا
Poet: Sajid Awan By: Sajid Manzoor Awan, Islamabadآنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں
مگر
دل میں لکھی تحریر وہی شخص پڑھ سکتا ہے
جس کیلیے لکھی گئی ہو
میں نے تمہاری آنکھوں سے تمہارے دل کی ہر تحریر پڑھی
نہ جانے کیوں
تمہاری باتوں
تمہاری یادوں
اور تمہارے نام میں اک اپنا پن سا محسوس ہونے لگا
میں نے جب تمہاری آنکھوں میں جھانکا
اک عجب سی کشش محسوس کی
تمہاری آنکھوں میں محبت کا ایسا سمندر دیکھا
جو ہر پل مجھے اپنی طرف کھینچتا چلا گیا
میں نے تمہاری آنکھوں میں لکھی وہ تحریر بھی پڑھی
جو مجھ سے کہہ رہی تھی
آؤ ان میں ڈوب جاؤ
میرے دل کی گہرائیوں میں اتر آؤ
میرے دل کو تو اک مدت سے تمہاری ہی تلاش تھی
میں ایک لڑکی ہوں
شرم وحیا کی زنجیروں نے مجھے روک رکھا ہے
کاش
تو مجھے شرم و حیا کے اس زیور کے ساتھ اپنا لے
میں نے تمہارے دل کی
ہر آواز کو
ہر تحریر کو
سنا اور پڑھا
مگر جواب نہ دیا
شاید
کوئی کہے
میں اس بات سے ڈرتا تھا
کہ
اگر میری پڑھی ہوئی تحریر
سنی ہوئی آواز غلط ثابت ہوئی تو۔
ایک حد تک تو یہ بھی بھی ٹھیک تھی یہ سب غلط ہو
تمہاری آنکھوں کی تحریرں میرے ہی جذبات کا عکس
یوں جو میں نے تمہاری آنکھوں میں دیکھنا چاہا
مگر
یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہو گا
میں اس بات سے اتنا نہیں ڈرتا تھا جتنا کہ
کسی اپنے کے بچھڑ جانے سے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






