سہانی صبح کی رنگت شباب جیسی ہے
میرے حبیب کی صورت گلاب جیسی ہے
ہزاروں سال سے اسکی ہی مدح کرتا ہوں
کہ اس کہ باغ کی الفت کتاب جیسی ہے
نہیں ہوں بھولا میں اس کہ رفیق کا چہرا
کہ اس کہ پیار کی عادت سراب جیسی ہے
اسے ہوں دیکھتا جب بھی تو دل یہ کہتا ہے
کہ اس سے دور کی الفت عذاب جیسی ہے
جواس کو دیکھا کبھی خواب نے تو بولا یہ
تمہارے زلف کی نکہت شراب جیسی ہے