سہما سہما ڈرا ڈرا ہے دل
دنیا والوں سے تھک چکا ہے دل
ضبط کرنے کی مشق کرتا رہا
ضبط میں ہی تھا جب مرا ہے دل
قید ہے جبر ہے تسلط ہے
سانس لیتے بھی ڈر رہا ہے دل
عشق کے نام پر بھی رسمیں ہیں
کیسے لوگوں میں آ گیا ہے دل
سارے خوابوں کو دفن کر کے بھی
روز تعبیر ڈھونڈتا ہے دل