نوید صبح نئے آفتاب ہیں ہم لوگ
سیاہ رات میں روشن چراغ ہیں ہم لوگ
زباں ہماری ہے پھولوں کی لہجہ خوشبو کا
کہ میر و غالب و سچل لطیف ہیں ہم لوگ
میں کیسے مان لوں دھرتی سے بے تعلق ہوں
یہ دیس میرا ہے دھرتی کے لعل یہیں ہم لوگ
صدائیں دو گے ہمیں مڑ کے ہم نہ دیکھیں گے
نکل گیا تیرے ہاتھوں وہ وقت یہیں ہم لوگ
زمیں سے کٹ کے کوئی گھونسلہ نہیں بنتا
بلندیوں کے اگرچہ ہیں نگہباں ہیں ہم لوگ