سینے میں جلن آنکھوں میں طوفاں سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشاں سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زود پشیمان پشیمان سا کیوں ہے
کیا کوئی نئ بات نظر آئی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے