شام رنگین ہھ یہ شام نہ خالی جائے
آؤ لگ جاؤ گلے عید منا لی جا ئے
بڑھ کے ڈس لیں گے یہ راتوں کے اندھیر ے ہم کو
کیوں سر شام نہ اک شمع جلا لی جائے
وصل میں ٹھیک نہیں لینا وفاؤں کا حساب
پھر کسی دن کے لئے بات یہ ٹالی جائے
بھیک دیدار کی پانے کو کھڑا ہے کب سے
آج تو در سے نہ خالی یہ سوالی جا ئے
دھرم سمجھوں میں ترا تو مرا مذہب سمجھے
اک نئ پیار کی بنیاد یہ ڈالی جائے
تیر اندازی میں اس کا نہیں ثا نی کوئ
وہ مہارت ہے کہ اک وار نہ خالی جائے
آئئے لکھیں ‘ حسن ‘ پھر کوئ رنگین غزل
ہر ادا شوخ کی اشعار میں ڈھالی جائے