یہ شام، کہ دل پہ اثر رکھتی ہے
اپنے اندر کوئی چبھتا سا اثر رکھتی ہے
جب بھی میں اس کو قریب سے دیکھتا ہوں
دل میں میرے اٹھائے ہوئے ایک لہر رکھتی ہے
ڈوبتے سورج کا حسن اس نے کس خوبی سے سمیٹا
اڑتے پنچھی، سر سبز شجر رکھتی ہے
اس کے حسن کو نکھارے رخ ماہتاب
جھومتے ہوئے ہواؤں کے سنگ ابر رکھتی ہے
اس کی خاموشی کہ کوئی شور برپا ہو جیسے
اس کی رونق سناٹوں کا اثر رکھتی ہے
اس کو سمجھو گے حسن کیسے کہ یہ شام حسیں
اپنا ہی انداز دگر رکھتی ہے