شام اپنے سینے میں کیسے راز سمائے رکھتی ہے
نہ کسی کو بتائے نہ دکھائے عجب صورت حال رکھتی ہے
کتنے غم کتنی خوشیاں اس کے سامنے سے گزریں
سناٹا طاری کیے اپنے جزبات چھپائے رکھتی ہے
تاریکی کا زیور زیب تن کیے روشنی سے بیزار رہے
روشنی راز افشاں کرے تاریکی راز دار رہے
شام طاری کرے نیند غافل پر صاحب نظر کو منزل بخشے
بندے کو خدا سے روابط بخشے عجب کردار رکھتی ہے
پیار کی رومانیت اوڑھے دکھائی دے پُر مسرت سی
جزبات کی تلخیاں اپنے سینے پر سجائے غمگین مجبور سی
نہ کسی کو دکھائے نہ ہمدردی اُٹھائے مضبوط خودار سی
اپنی آنکھوں میں آنسو لیئے تاریکی اوڑھے رکھتی ہے
شام تیری رمزیں جاننے سے قاصر ہے میری سوچ
تیرا کردار عیاں ہی نہیں اس لیئے کشمکش میں ہے میری سوچ
چاند ستارے آنگن میں لیئے ہے اگرچہ تاریکی ہے زیب تن
حیدر! نہیں سمجھ پاوَ گے شام کی حقیقت ایسے خدوخال رکھتی ہے