شام آئی، تیری یادوں کے ستارے نکلے
رنگ ہی غم کے نہیں نقش بھی پیارے نکلے
ایک موہوم تمنا کے سہارے نکلے
چاند کے ساتھ، تیرے ہجر کے مارے نکلے
وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
عشق کے باب میں، سب جرم ہمارے نکلے
عشق دریا ہے ،جو تیرے وہ تہی دست رہے
وہ جو ڈوبے تھے کسی اور کنارے نکلے