شامِ فراق اب نہ پوچھ، آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزم خیال میں تیرے حُسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی
جب تجھے یاد کر لیا، صبح مہک مہک اُٹھی
جب تیرا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی
دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں انکے سامنے، بات بدل بدل گئی
آخری شب کے ہمسفر فیض نہ جانے کیا ہوئی
رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی