کہتے ہیں اس میں حسن ہے انداز و ناز ہے
مانیں گے ہم بھی خوب اگر دل نواز ہے
شاید شہد سے خاص ہے رغبت زبان کو
شیریں بیاں کرے بھی تو شکوہ طراز ہے
چہرہ ہے دل کا آئینہ پردہ بھی کچھ رہے
یوں اس قدر سنجیدگی افشائے راز ہے
تو مجھ میں عیب ڈھونڈتا ہے ، میں ترے ہنر
ہم دونوں کے مزاج میں یہ امتیاز ہے
سجدوں سے پڑ تو جائے گا ماتھے پہ اک نشاں
دل کی حضوری جو نہ ہو پھر کیا نماز ہے
انساں ہوں میرا نفس تو بہکائے گا مجھے
الللہ فقط خواہشوں سے بے نیاز ہے
مہنگائی بھی ، جدائی بھی ۔کس کس کا دکھ سہیں
جب سلسلہ بھی دونوں کا بے حد دراز ہے
رحمت اسی پہ چھانے کو رہتی ہے منتظر
عاجز ہے اور قلب بھی جس کا گداز ہے
سر بھیرویں کے چھیڑے یا ملہار گائے وہ
کوئل کی کوک سے بھی سریلی آواز ہے
گلبن ہے ، زندگی میں ہیں کانٹے بھی پھول بھی
زاہد ہر اک نشیب کے آگے فراز ہے