شاید یہ عمر اپنے آپ کو پرکھنے میں ھی گئی
کہ جیسے مو ج سمندر خود سر سر پٹکنے میں ھی گئی
اب تو ازسر نو زندگی ملے تو کچھ کریں
یہ زیست تو رائگاں کچھ سمجھنے میں ھی گئی
بہت خو شیوں کے سہار ےاڑتے ھو ے دیکھا
خوابوں کی حقیقت آنکھ جھپکتے میں ھی گئی
کنار ے کی خواھش تو ناکام رھی آخر
ھماری کشی تو بھنور میں پھسنے میں ھی گئی
ان کے آنگن میں آنکھ مچولی کھیلے تو بہت
تمناوں کی دنیا چھپنے چھپانے میں ھی گئی
اک دن روبرو پا کر حیرت سی ھوی
پرچھائیں انکی آنکھ مسلنے میں ھی گئی
مثل حیات اپنی ایسی ھی ھے عارف
ماھی بے آب جیسے تڑپنے میں ھی گئی