شب میں جب چھڑا یار کھلتا چلا گیا
ہزار چھپائے راز ہر راز بار بار کھلتا چلا گیا
بیگانی سی راہوں میں اجنبی ملا مجھے
جادو ہوا ایسا دل بےقرار کھلتا چلا گیا
انجام جو ہو چاہیے اس کی کہاں پرواہ خزاں
ہم ایسے کھلے کہ گلزار کھلتا چلا گیا
شام ہوئی سحر ہوئی رات گزی دن ہوا
عارضی زندگی کا راز میرے یار کھلتا چلا گیا
کہا خوش ہوں شاد ہوں کوئی فکر نہیں مجھے
حال جتنا چھپایا اتنا ہر بار کھلتا چلا گیا
اٹھاتا گیا جسے وہ پردہ نشیں پردے کو جس طرح
ارشد فلک پر چاند تاروں کا بازار کھلتا چلا گیا