شب ڈھلی چا ند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی
ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی
وہ قیامت ھو ستارہ ھو کہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹ تو سہی
دل اسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی
سب سے ہٹ کے منانا ھے اسے
ھم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی
اسکی راہ میں آنکھیں بچھا دوں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی
اسکے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے وہ بولے تو سہی