شب ہے،تنھائی ہے ، میں ہوں،محبوب ہے
یہ نوازش تری اے خدا خوب یے
جب سے افشاء ہوا اپنی الفت کا راز
ہر ادا ان کی مجھ سے ہی منسوب ہے
جی تو کرتا ہے بانہوں میں بھر لوں انھیں
بات لیکن یہ سنتے ہیں معیوب ہے
وہ ہی مانوس سی خوشبو آنے لگی
لا ادھر نامہ بر، ان کا مکتوب ہے
بس تری دھن ہے اور عالم بیخودی
لوگ سمجھے ہیں یہ کوئی مجذوب ہے
حسن کے سامنے کیسے شکوے گلے
بات وہ کیجے جو ان کو مر غوب ہے
اے ‘حسن‘ اس لئے ان سے بنتی نہیں
جی حضوری ھی بس ان کو مطلوب ہے ‘