عشق پلکوں پر
پروانے اترے
دیوانے تھے جو پر جلانے اترے
لمس کی حدت نے
خوشبو کی شدت نے
آءین کے سینے پر پتھر رکھا
گلاب آنکھیں پتھر
ہر رہگزر خوف کا گھر
سوچ دریچے برف ہوءے
بہری دیواروں پر
گونگے خواب اگے
اندھے چراغ جلے
شبنم نبضوںمیں
موت کا شعلہ تھا
شہر میں کہرام مچا
پروانے تو دیوانے تھے
پر جلانے اترے