خمارِ عشق کی سر مستیوں کی بات کریں
دیارِ حسن میں دیوانے دل جو رات کریں
وہ ذوق و شوق کی بے تابیاں کہ ان کے طفیل
سرور و کیف کی حاصل مئے نشاط کریں
زہے نصیب مقابل ہیں آج وہ ماہ رُو
تصورات میں جو روز واردات کریں
متاعِ جاں بھی لٹا دیں گے اک اشارے پر
وہ اپنی چشمِ کرم سے جو التفات کریں
حدیثِ دل کا بیاں ہے محال لفظوں میں
تو گوشِ دل سے سنیں اور نظر سے بات کریں
کتابِ زیست کے عنواں بدل گئے فیصلؔ
کسی حسین سے موسوم اب حیات کریں