شجر بن کے زندگی کو گزارا جائے
اِک قرض یوں بھی تو اُتارا جائے
انا کہتی ہے رُخ موڑ کے چل دوں
دل کہتا ہے اُسے پکارا جائے
اِک بار تو کھیلیں گے بازی عشق
چاہے ہو اِس میں خسارہ جائے
جہاں سے ملتا ہے بن مانگے سب کو واجد
کیوں نہ پھر اُس در پہ کوئی دوبارہ جائے