سنا تھا نظموں اور افسانوں میں چرچااسکا
وہ ہے شجرمحبت اگے اس پہ پھل خوشی کا
نہ ہوگانصیب یہ ثمر ان لوگوں کو کبھی
جن کے پاؤں میں سنگلی حیا کی رہی
وہ جوجکڑا گیا عقل کی زنجیر سے
نہ پائے گا وہ پھل کسی تدبیرسے
چلااک دن میں جو توڑی زنجیریں سب
نکلا اکیلا حوالے ہوں تیرے اے رب!
وہ رستہ اتنا سوہانہ کہ ہریالی دیکھی ہر سو
چمکتے شوخ پھول، برسات کی میٹھی خوشبو
تھا دل میں بسا یہ رستہ کا سما
ہائے!اس رخ پہلے کیوں نہ گیا؟
جو دیکھا جو سامنے وہ شجر چاندی جیسا
جوپڑھا تھا میں نے تھا ویسا ہی پایا
یہی ہے شجر جس کو ڈھونڈے زمانہ
اسی پہ اگا تھا اک پھل زردانہ
اس پھل کی لذت نہ ہوگی بیان
تھا رس اسکا ایسا نہ بھولی زبان
اس پھل کو میں نے تھا لب سے ملایا
سواد اسکا ایسا کہ کڑی دھوپ میں سایہ
اس پھل کے اثر میں سمجھ کھو گئی
آنکھیں تھی بھاری مارے خماری
شجر کی جڑوں کو کہتے تھے وفا
لگی تھی ان سب کو ضربِ جفا
مرجھانے لگا وہ شجرِمحبت خزاں سا
اچانک ہرسو اندھیرہ دیکھتے گھبرا گیا
لرزنے لگی تھی زمیں زلزے میں
واپسی کا سوچا تو گرا اک کھائی میں
کھائی جسے کہتے ہیں نا امیدی کی
کانٹوں سے بھری سلاخیں تیکھی
بلا کی تھی مشقت وہاں سے نکلنے کی
جگر تھا سارا چھلی،بدن بھی میرا زخمی
نکلا ہی تھا کہ، کڑکنے لگی گھٹا سزاکی
گھٹا مے تھی وحشت خوف و غصے کی
برسنے لگے مجھ پہ اولے تنز و حقارت کے
جسے نشتر برسائے دشمن ڈبو کے زہر سے
گرِتا پڑتا اٹھتا سمبھلتا ،ڈھلی عمر ستم میں
تھے آخری سانس بچے میرے تن میں
کھڑا اک جوان ہاتھوں کی کڑیاں توڑ کے
پاوں سے زنجرِ رسم و رشتہ چھوڑ کے
تھا وہ بھی متاثر فسانوں کے قصوں سے
جوشِ جوانی تھا سر چڑھا بھی تھا اسکے
گرا تھا میں زمین پہ دی جواں کو نصحیت
کہ رک جا بیٹا نہ جانا وہاں ہے مصیبت
محبت کا شجر ہے صرف اک فسانہ
اس میں ہے دھوکہ جو ہے قاتلانہ
ایسی بہارسے خزاں بہت اچھی
یہ ہے جہاں خسارا ُ،پلے میرے پڑی