شجرِ محبت
Poet: جیند نیازی By: Junaid Khan, Mianwaliسنا تھا نظموں اور افسانوں میں چرچااسکا
وہ ہے شجرمحبت اگے اس پہ پھل خوشی کا
نہ ہوگانصیب یہ ثمر ان لوگوں کو کبھی
جن کے پاؤں میں سنگلی حیا کی رہی
وہ جوجکڑا گیا عقل کی زنجیر سے
نہ پائے گا وہ پھل کسی تدبیرسے
چلااک دن میں جو توڑی زنجیریں سب
نکلا اکیلا حوالے ہوں تیرے اے رب!
وہ رستہ اتنا سوہانہ کہ ہریالی دیکھی ہر سو
چمکتے شوخ پھول، برسات کی میٹھی خوشبو
تھا دل میں بسا یہ رستہ کا سما
ہائے!اس رخ پہلے کیوں نہ گیا؟
جو دیکھا جو سامنے وہ شجر چاندی جیسا
جوپڑھا تھا میں نے تھا ویسا ہی پایا
یہی ہے شجر جس کو ڈھونڈے زمانہ
اسی پہ اگا تھا اک پھل زردانہ
اس پھل کی لذت نہ ہوگی بیان
تھا رس اسکا ایسا نہ بھولی زبان
اس پھل کو میں نے تھا لب سے ملایا
سواد اسکا ایسا کہ کڑی دھوپ میں سایہ
اس پھل کے اثر میں سمجھ کھو گئی
آنکھیں تھی بھاری مارے خماری
شجر کی جڑوں کو کہتے تھے وفا
لگی تھی ان سب کو ضربِ جفا
مرجھانے لگا وہ شجرِمحبت خزاں سا
اچانک ہرسو اندھیرہ دیکھتے گھبرا گیا
لرزنے لگی تھی زمیں زلزے میں
واپسی کا سوچا تو گرا اک کھائی میں
کھائی جسے کہتے ہیں نا امیدی کی
کانٹوں سے بھری سلاخیں تیکھی
بلا کی تھی مشقت وہاں سے نکلنے کی
جگر تھا سارا چھلی،بدن بھی میرا زخمی
نکلا ہی تھا کہ، کڑکنے لگی گھٹا سزاکی
گھٹا مے تھی وحشت خوف و غصے کی
برسنے لگے مجھ پہ اولے تنز و حقارت کے
جسے نشتر برسائے دشمن ڈبو کے زہر سے
گرِتا پڑتا اٹھتا سمبھلتا ،ڈھلی عمر ستم میں
تھے آخری سانس بچے میرے تن میں
کھڑا اک جوان ہاتھوں کی کڑیاں توڑ کے
پاوں سے زنجرِ رسم و رشتہ چھوڑ کے
تھا وہ بھی متاثر فسانوں کے قصوں سے
جوشِ جوانی تھا سر چڑھا بھی تھا اسکے
گرا تھا میں زمین پہ دی جواں کو نصحیت
کہ رک جا بیٹا نہ جانا وہاں ہے مصیبت
محبت کا شجر ہے صرف اک فسانہ
اس میں ہے دھوکہ جو ہے قاتلانہ
ایسی بہارسے خزاں بہت اچھی
یہ ہے جہاں خسارا ُ،پلے میرے پڑی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






