شرطہ یہ نہیں کہ میرے ہو جائو تُم،
میں تو کہتا ہوں مجھے اپنائو تُم،
ستم کرو، جفا کرو، ظلم کی انتہا کرو
مگر یار مجھ سے نہ دُور جائو تُم،
کرو اپنی مرضی جو جی چاہے تیرا
دن میں اِک بار ضرور شکل دِکھائو تُم،
تڑپتا ہوں تو تڑپنے دو مجھے شام و سحر
مرہم نہ سہی مگر پاس بیٹھ جائو تُم،
نہ سُنو میری گر اچھی نہیں لگتی آواز میری
میں خاموش ہوں چلو اپنی سُنائو تُم،
دے دو مجھے تمام پریشانیاں صنم اپنی
بس مسکرائو تُم، بس مسکرائو تُم،
اپنے آنسوئوں کی دولت دے دو مجھے
دلِ غریب کو آج شہنشاہ بنائو تُم،
صبرِ انتظار کے دامن چُھوٹ رہے ہیں
خدا کا واسطہ ہے جاناں! لوٹ آئو تُم،
عاشقِ دلگیر ہوں جا رہا ہوں تیری دنیا سے
اِک آخری بار دیدارِ حُسن کا جام پِلائو تُم،
یقینا آ جائے گی مجھ میں سانیس لوٹ کے
بن کے عیسا مجھے گلے سے لگائو تُم،
نہال کرو کسی روز اپنے نام کے جیسے نہال
تھک چُکی ہوں میں رو رو کے اب نہ رُلائو تُم،