شرما کے دیکھتے ہیں یوں آ جائے ان پہ پیار
ان کے بھی دل میں پیار ہے لگتے ہیں کچھ آثار
کہتا نہیں اگرچہ محبت ہے مجھ کو بھی
چاہت ہے ان کے دل میں تو چاہت ہے مجھ کو بھی
اک دوسرے پہ آہی چکا ہم کو اعتبار
ان کے بھی دل میں پیار ہے لگتے ہیں کچھ آثار
عہد و پیماں ہوئے ہیں نہ اس کی ضرورتیں
کہ وفا نبھانے کی تو ہیں کچھ اور صورتیں
الفت پہ الفتوں سے ہی آتی ہے نو بہار
ان کے بھی دل میں پیار ہے لگتے ہیں کچھ آثار
سینے سے لگ کے پیار کی سرگوشیاں بھی ہوں
ایسے میں مستیاں بھی ہوں، مد ہوشیاں بھی ہوں
جذبات کو جوانی ملے اور اک نکھار
ان کے بھی دل میں پیار ہے لگتے ہیں کچھ آثار