شریر حرکتیں اک دن ارمان بن جاتی ہیں
عادتیں بڑہ بڑہ نافرمان بن جاتی ہیں
ویسے تو تنہائیاں خیال باطل ہیں ہماری
کبھی کبھی ملاقاتیں بھی مہربان بن جاتی ہیں
قابل سرُاغ ہیں منزلیں پاؤں ٹھکانے رکھنا
بھٹک کر راہیں بھی تو انجان بن جاتی ہیں
ہم مذہب کے جانب اتنے مہذب بھی نہیں
تہذیب سے محبتیں ایمان بن جاتی ہیں
باہر کی رغبت ہے اندر کا اتہاس کون پوچھے
حسرتیں سنور سنور کے ارغوان بن جاتی ہیں
موسموں کا آنا جانا من سے ہی جڑتا ہے
یوں تو بہاروں میں کلیاں زعفران بن جاتی ہیں