شعر کہنے کو ایک خیال سَہانا مِلا
اِسی بہانے دِل کو خوشی کا بہانہ مِلا
جو مجھے میرے جیسا دکھائی دینے والا
سوئے اتفاق پھر سے ایک دیوانہ ملا
دَور سے وہ اور تھا پاس آیا تو کوئی اور
دِکھنے میں نادان پرکھنے میں سیانہ مِلا
اینٹ پتھر کے مکانوں میں تو سب رہتے ہیں
لیکن اس مکین کو دل جیسا ایک ٹھکانہ ملا
ایک دِن کا ذکر ہے راستے میں یوں ہوا
دیکھا بھالا سا مجھے اک انجانہ ملا
دِل لگی کے کھیل میں یہی تو ہوتا آیا ہے
دِل کے بدلے میں دِل کو دِل کا نذرانہ مِلا
عظمٰی وفا کی راہ نمیں خود کو مٹانے کیلئے
پھَول بَلبَل کو مِلا، شمع کو پروانہ مِلا