شعلہِ عشق بجھانے میں تکلف کیسا
آگ سے خود کو بچانے میں تکلف کیسا
اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی
اور مجھے راہ پہ لانے میں تکلف کیسا
میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانے میں تکلف کیسا
سادگی بانکپن شوخی شرارت ان کی
تُو نے انداز وہ پانے میں تکلف کیسا
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آنے میں تکلف کیسا
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمھارے انداز
وہ مرے دل میں سمانے میں تکلف کیسا
سامنے سب کے سدا خود کو ہنسائے رکھنا
بات بے بات رلانے میں تکلف کیسا
اپنی تنہائی کو سینے سے لگا کر وشمہ
دل کی ہر بات بتانے میں تکلف کیسا