اک رات تھا میں تنہا تنہا
کھویا تھا کسی کی یادوں میں
شمع تھی فروزاں پاس میرے
نا جانے کتنے پروانے
اک آن ہی آن میں آتے تھے
شمع پہ جھوم کے گرتے تھے
اور گرتے ہی مر جاتے تھے
پوچھا میں نے پروانوں سے
کیا میری طرح تم پاگل ہو
کیوں مفت میں جان گنواتے ہو
تب پروانے یہ کہنے لگے
ہے دور یہاں سے اک جنگل
جہاں کھلتے ہیں بڑے پیارے کنول
ہے ایک کنول ان پھولوں میں
جہاں رہتی ہے اک ننھی پری
ہے اتنی حسین کہ دیکھے جو
پھر ہوش اسے آتا ہی نہیں
اک دن پروانوں کی ٹولی
گزری تھی جھیل کے پھولوں سے
جب دیکھی سب نے ننھی پری
سب اس سے محبت کر بیٹھے
باری باری سب آگے بڑھے
اقرار محبت کرنے لگے
تب ننھی پری یہ کہنے لگی
جب رات میں سورج ڈھلتا ہے
اور اندھیارہ چھا جاتا ہے
تب مجھ کو ڈر سا لگتا ہے
تب دل میرا گھبراتا ہے
اے میرے عاشق پروانوں
گر مجھ کو اتنا چاہتے ہو
لے آؤ کہیں سے ڈھونڈ کے تم
اک جلتی ہوئی اگنی کی کرن
اک وہ دن تھا اک آج کا دن
ہم سب کی یہی بس خواہش ہے
بانہوں میں بھر کے یہ اگنی
لے جائیں وہاں اس جنگل میں
جہاں رہتی ہے وہ ننھی پری
تب خود سے میں یہ کہنے لگا
یہ بھی کیسے دیوانے جو
جو یوں جل کر مر جاتے ہیں
جو یوں جل جل کر بھی اپنی
چاہت کو امر کر جاتے ہیں