بارش اگرچہ شور زیادہ مچائے گی
کانوں میں پھر بھی وہ مدھر آواز آئےگی
اے برق میرے گھر کو تو جب بھی جلائے گی
ہاتھوں میں میرے خون کی مہندی رچائے گی
یہ سب خیال و خواب کی باتیں ہیں آج بھی
مفلس کے گھر میں خوشیوں کی بارات آئے گی
شوق جنوں میں دیکھئے' ایسا بھی ہوگا حال
لکھ لکھ کےمیرا نام وہ خود ہی مٹائے گی
میں نے تو اس کے بارے میں سوچا نہ تا کبھی
وہ اپنے قول و فعل کو ایسا نبھائے گی
لاپروا میری ذات سے کب تک رہے گی وہ
ناراض گر کرے گی' تو خود ہی منائے گی
جو ہر وہ نازنین ہے فطرت میں باکمال
سنتے ہیں انگلیوں پہ وہ تجھ کو نچائے گی