بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکستِ خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں
نہیں نہیں، یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے اور ملے بھی نہیں
یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تیری یادوں کے ڈھلے بھی نہیں
خفا اگرچہ ہمیشہ ہوئے مگر اب کے
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گلے بھی نہیں