شکوہ بےرخی گلا دوراں کیاکریں ہیں
کچھ دکھ ذندگانی ازلی تقدیرمیں لکھیں ہیں
گلوں میں رنگ وبووہی آثارنوبہار
حسیں یادوں نےکچھ نقش چھوڑدیئےہیں
اس من میں چھپی ہوئی حسین دیوی کی
آنکھیں نہیں روشن جیسے دیئے ہیں
مثل گردتھےہم کبھی جسکی نظرمیں
وہی آج زمانےبھرمیں خاررہ گئےہیں
تیرےحسن کا سحرادائیں نازوانداز
میری روح تک میں اترنےلگےہیں
یوں تسلیاں دےکہ سمیٹونہ ہمیں
بکھرکہ ہم اب سمیٹنےسےرہ گئےہیں
نہ مسکرانےپہ کرمجبورمجھےعائش
کھلےزخم بھیگی پلکوں کےکناریں ہیں