اپنی دنیا سے یوں خفا تھی میں
تیرے در کی اگر گدا تھی میں
غم نہ ملتے جو تیری ہجرت کے
اپنے آنگن کی یہ ہوا تھی میں
بیٹھی رہتی تمارے گلشن میں
میں تو بلبل کی یہ صدا تھی میں
مجھکو میری وفا نے کچھ نہ دیا
اچھا ہوتا کہ بے وفا تھی میں
تو جو مل جاتا پیار کی صورت
کیوں مقدر پہ یہ خفا تھی میں
میں بھی تجھ کو ہی مانگتی رب سے
ترے ہاتھوں کی یہ دعا تھی میں
شہرحسرت کی اب بھی گلیوں میں
کیا ضروری ہے کربلاتھی میں
شکلِ خوشبو جو کھِل رہی ہے کلی
شکلِ ہستی یہ باوفا تھی میں
تو جو ملتا وفاؤں کی صورت
وشمہ ایسے بھی یہ خفا تھی میں