شہرِ غم میں مجنوں کا حال جو ہوا ہو گا
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreشہرِ غم میں مجنوں کا حال جو۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوا ہو گا
لیلیٰ کو خبر ہو گی اُس کو سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتاہو گا
آج دل کی بے چینی کچھ سِوا سی ۔۔۔۔۔۔لگتی ہے
آج پھر کوئی تارہ ٹوٹ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گرا ہو گا
اُس مزاجِ شاہی کا کچھ پتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں چلتا
ڈر تو یہ مجھے بھی ہے کیسے ۔۔۔۔۔۔۔معاملہ ہو گا
خار تھا جو پہلو میں اُس حسیں کے۔۔ ہاتھوں میں
سوچتا ہوں دل میرا پھول بن ۔۔۔۔۔۔گیا ہو گا
اُس کے ذکرِ شیریں کا کچھ مزہ۔۔۔۔۔ تو لینے دو
جانتا تو میں بھی ہوں اُس نے کیا ۔۔۔۔کہا ہو گا
جی میں ہے کہ سچ کہہ دوں جا کے رُوبُرو اُس کے
دل مگر یہ کہتا ہے کیسے ۔۔۔۔۔۔۔حوصلہ ہو گا
کھیلتے ہو کیوں میری زندگی سے۔۔ اے قاصد
اُس نے کچھ کہا ہو گا تُو نے کچھ۔۔۔۔۔ سنا ہو گا
آرزو جو دل میں تھی درد بن ۔۔۔۔۔گئی ہو گی
درد ہی سےجانِ من گل نیا ۔۔۔۔۔۔کھلا ہو گا
میری بھیگی آنکھیں بھی سُوز سے۔ سلگتیں ہیں
دل تو کورا کاغذ تھا وہ تو جل۔۔۔۔۔۔ بجھا ہو گا
آج کیوں خیالوں میں چاندنی چمکتی ۔۔۔۔ہے
.مطلعءِ غزل میں پھرچاند آگیا ۔۔۔۔۔۔ہو گا
شہرِ دل کی گلیوں میں روشنی سی ۔۔۔لگتی ہے
شہرِ دل کی گلیوں میں کوئی۔۔۔۔ گھومتاہو گا
تازہ واردانِ عشق جلد باز ۔۔۔۔۔۔کتنے ہیں
پُوچھتے ہیں منزل تک کتنا ۔۔۔۔۔فاصلہ ہو گا
وؔسیم کو اِسی راہ پر ڈھونڈتے۔۔۔۔۔ چلے جاؤ
بن کےکوئی سنگِ میل راہ میں۔۔۔ پڑا ہو گا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






