مشکل ہے بہت عہدِ مسلسل سے گزرنا
صحرا کے کسی بھولے ہوئے کل سے گزرنا
اک شخص نے پھر آج ہواؤں کے مخالف
عادت ہی بنالی ہے مرے دل سے گزرنا
برسے گا کسی روز تو بھیگے گی تمنا
اک خواب کی دنیا میں ہے بادل سے گزرنا
اس زیست کے طوفان کا لگتا ہے اشارہ
دریا کا مری آنکھ کے کاجل سے گزرنا
اب راستہ وشمہ تو کوئی اور بنا لے
اس نے تو ہے اغیار کی محفل سے گزرنا