فسانے بہت ہیں سُنانے کو تم کو
بہت چٹکلے ہیں ہنسانے کو تم کو
بھلا روُٹھ کر بھی کویٗ بیٹھتا ہے
بہانے بہت ہیں منانے کو تُم کو
رکھا اپنے جذبوں کو دِل میں دبا کے
نہیں تھا قرینہ رِجھانے کو تم کو
کیا شیشہٗ دِل ترا چوُر ہم نے
بہت شوق تھا نا رُلانے کو تم کو
کیوں رُوٹھ بیٹھے ہو پھبتی پہ میری
مجھے تھا بہانہ ستانے کو تم کو
کہا سب ہی گہنوں نے اِترا کے ان سے
سبھی ہم جتے ہیں سجانے کو تم کو
نہیں ہم کو کچھ بھی شغف شاعری سے
ہے بہروُپ سارا لُبھانے کو تم کو