صرف تمہارے لیے
Poet: Shabeeb Hashmi By: Shabeeb Hashmi, Al-Khobar K.S.Aیہ دل اور جسم و جاں ہے
صرف تمہارے لیے
میری نس نس میں خوں رواں ہے
صرف تمہارے لیے
تم سامنے رہو تو
کچھ بھی ناں کہہ سکوں
ہر لفظ بے زباں ہے
صرف تمہارے لیے
سب پھول اور انکی خوشبو
تیرا پتہ بتائیں
آنگن میں میرے چھاؤں
صرف تمہارے لیے
میرے خوابوں کی ساری گلیاں
آباد تیرے دم سے
میرا آنچل جو آسماں ہے
صرف تمہارے لیے
وہ ندیا کے حسیں کنارے
خواہشوں کی ساری پریاں
جھلمل ستاروں کا سماں ہے
صرف تمہارے لیے
وہ ساحل کی چاندنی میں
چمکتی ہوئیں سیپیاں
ریت بھی رازداں ہے
صرف تمہارے لیے
مٹھی میں میرے بند
محبت کی وہ ڈلیاں
لبوں کی مسکاں ہے
صرف تمہارے لیے
آنکھوں میں میری قید
صبح کی وہ جوانی
پلکوں کی کہکشاں ہے
صرف تمہارے لیے
نظروں میں میری مستی
لبوں پے وہ شیرینی
ادائیں جو مہرباں ہیں
صرف تمہارے لیے
لطف و کرم کی باتیں
برسات کی وہ راتیں
بارش جو مہماں ہے
صرف تمہارے لیے
یہ دل اور جسم و جاں ہے
صرف تمہارے لیے
میری نس نس میں خوں رواں ہے
صرف تمہارے لیے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






