ضبط غم کے بحر میں ڈوبا ہوا
خامشی سے ہر ستم سہتا ہوا
ہوش میں کچھ بھی کہا جاتا نہیں
بے خودی میں مدعا کہتا ہوا
منتظر ہیں اب سزا کے ہم تری
جھوٹ کی دنیا میں سچ کیا ہوا
آشنا دنیا سے کچھ ایسے ہوئے
خود سے بھی ہم اجنبی رہتا ہوا
ہم نے بھی زخموں سے کر لی دوستی
جسم پر سب زخم اب پیدا ہوا
اب جفاؤں کا نہیں ہے ڈر ہمیں
ہم وفا کی داستاں سے جلتا ہوا
تیرے بخشے غم سبھی وشمہ یہاں
درد بن کر آنکھ سے بہتا ہوا